طلا کی حقیقت اور طلا کی تیاری
اکثر گروپس اور پیجز پر روزانہ نت نئی پوسٹ طلا پر آئی ہوتی ہیں ہر کوٸی بڑھ چڑھ کے لکھتا ہے کوٸی کوبرا آٸل کی مشہوری دے رہا ہوتا ہے کوٸی بیر بہوٹی کے نایاب طلا۶ کی ایڈ دے رہا ہوتا ہے اور کوٸی نفس کو موٹا اور لمبا کرنے کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں
عمومآ نتائج کے اعتبار سے زیادہ تر غلط ثابت ہوتے ںیں جب اجزاء دیکھے جاتے ہیں اور نیچے فوائد لکھے دیکھتے ہیں تو بہت تضاد ہوتا ہے زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ںیں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا
تو آئیے آج ہم بہت سی باتوں کی اصلاح کر لیتے ہیں اور بے جا محنت سے بھی بچ جائیں گے اس پوسٹ میں شاید کچھ الفاظ مجھے بے شرمی کی حد تک لکھنے پڑ جائیں ان پہ معذرت چاہوں گا
پہلی بات طلا کب اور کیسے اثر انداز ہوتا ہے
آپ سے میرا سوال ہے کہ انسان کا جسم قدرتی طور پر کب تک بڑہتا رہتا ہے
قانون فطرت ہے کہ ایک مخصوص عمر کی حد ہوتی ہے جب تک انسان کا قد بڑھ سکتا ہے
بس وہ عمر گزر جاتی ہے تو فطرت کا وہ نظام جو قد بڑھانے کا کام کرتا ہے پھر اپنا کام روک دیتا ہے اس کے بعد انسان کو صرف تعمیر بدن کی ضرورت ہوتی ہے اسکے بعد آپ جو غذا کھاتے ہیں اس سے صرف تعمیر بدن ہوتی ہے جو خلیات ضائع ہوتے رہتے ںیں وہاں نئے خلیے بنتے رہتے ہیں اور بدن کی ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے
پچیس سال تک بندے کا قد بڑہتا ہے اب کچھ لوگوں کے ہارمون 28 سال کی عمر تک کام کرتے رہتے ہیں بعض لوگ لاکھوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا قد چالیس سال تک بھی بڑہتا رہتا ہے وہ حقیقت میں ہارمونز کی خرابی کے ایسے مرض کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کا بے جا اور بے ڈہنگا قد بڑھ جاتا ہے ان لوگوں کی عمریں مختصر ہوا کرتی ہیں کیونکہ یہ بہت سی ایسی امراض کا شکار ہوتے ںیں جو انہیں جلد ہی اس دار فانی سے لے جاتی ہیں اب ایک بالکل اسی طرح کی ایک مرض ہے جسے ایگرو میگلی کہتے ہیں اس مرض میں گردن بڑھ جانا یا کوئی اعضاء غیر فطری انداز میں بڑھ جاتا ںے باقی بدن پورا رہتا ہے پہلے تو یہ مرض بہت ہی کم دیکھنے میں آتی تھی جب سے ایٹم کو چھیڑا گیا ہے یا مختلف کیمیکل تیار ہوئے اور مختلف ممالک کی جنگوں میں ان کا بے دریغ استعمال ہوا تو ان کیمیکل کا اثر وہاں تک محدود نہیں رہا جہاں انہیں استعمال کیا گیا بلکہ ہوا کے ساتھ یہ اثرات پوری دنیا پہ پھیلے ہیں
جب بدن کی بڑہوتری فطری طور پہ رک جاتی ہے تو اسے غیر فطری طور پہ بڑھانا یعنی ادویات کا سہارا لے کر ہارمونز کو متحرک کرنا ہمیشہ مختلف قسم کے امراض کا باعث بنتا ہے بالکل یہی قانون عضو تناسل پہ لاگو ہوتا ہے کیونکہ یہ بھی آپ کے جسم کا حصہ ہے لیکن ایک فرق ہے کہ عضوتناسل کو بڑہانے کے لئے حکماء مقامی ادویات یعنی طلا اور ضماد کا سہارا لیتے ہیں جبکہ پورے جسم کو بڑہانے کے لئے اندرونی ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے اب مقامی طور پر بھی اگر آپ طلا اور ضماد کرتے ہیں تو سوائے نفس کا نقصان کرنے کے اور کچھ بھی فاٸدہ نہیں کرتے اب میں اس کی چند مثالیں دیتا ہوں ایک طریقہ بڑا ہی معروف ہے
ڈویلپر کا استعمال
اس سے سوائے عضو کو کھینچنے کے اور کچھ بھی نہیں کیا جاتا اب اس کے بداثرات بعد میں ہوتے ہیں کہ عضو کی نسیں اور اعصاب مکمل طور پہ کمزور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اپنا فطری فعل سرانجام دینے میں ناکارہ یا انتہائی سست ہو جاتا ہے بالکل ڈھیلا جس میں انتشار آئے بھی تو خون اس رفتار سے دورہ نہیں کرسکتا جتنا فطری انداز میں کرسکتا ہے اب ایک شخص کو میں نے دیکھا جسے حکیم صاحب نے عضو تناسل سے وزن بندھوا دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے پیڑو کے اعصاب انتہائی مخدوش ہو چکے تھے عضو تو بڑھ گیا لیکن بے ڈہنگے انداز میں اور پیڑو کا درد نہیں جارہا تھا سمجھ لیں اگر عضو رعب داب بن بھی گیا ہے تو حقیقت میں ناکارہ ہی ہے اک صاحب نے ایک دفعہ ایک سوال کیا کہ عضو کو بڑہانے میں کوئی ایسی ادویات بھی ہیں جو سو فیصد رزلٹ دے سکیں میں نے کہا بالکل ایسی دواٸیں ہیں عضو تناسل ادویات سے لمبا نہیں ہو سکتا کبھی آپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں لکھا ہے جبکہ یہ بھی کہہ رہا ہوں کہ لمبا ھہو سکتا ہے تو اس بات کے پیچھے جو فلسفہ ہے اس کا اظہار آج کیے دیتا ہوں
عضوتناسل بڑھ ضرور جاتا ہے لیکن یہ عمل غیر فطری ہوتا ہے اب اس طرح بڑھایا گیا عضو تناسل وہ وظیفہ ادا نہیں کرسکتا جو اسے ادا کرنا چاہیے انتہائی کمزور اور مختلف مسائل کا شکار رہتا ہے آج آپ کو ایک سادہ اور آسان طریقہ ضرور بتاؤں گا جس سے نقصانات انتہائی کم ہوتے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ عضو بڑھ بھی جاتا ہے جس سے آپ مطمئن ہو سکیں
اب نقطہ بتانے سے پہلے ایک اور بات بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا عضو تناسل پہلے تو بالکل درست سائز میں تھا جبکہ اب چھوٹا ہو گیا ہے اب ایسے مریض کو طلا لگوانے سے زیادہ خوردنی دوا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے مقامی طور پہ صرف ایسا طلا استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے حرارت غریزی مقامی طور پر بڑھ سکے اب اندورنی طور پر بھی ایسی دوائیں کھلائیں جس سے حرارت غریزی پیدا ہو تو عضوخاص کا سائز بڑھ جائے گا یہ الگ مرض ہے اس کا علاج عمر کے ہر حصہ میں کیا جا سکتا ہے
اب نقطہ بیان کرتا ہوں ایک مرض ہوتی ہے جسے فیل پاء کے نام سے جانا جاتا ہے اس مرض میں مریض کی ایک ٹانگ یا مرض کی شدت آنے پہ دوسری ٹانگ پر بھی حملہ ہو جاتا ہے
ایک ٹانگ غیر فطری انداز میں بڑھ کر ہاتھی کے پاؤں جیسی ہو جاتی ہے انتہائی موٹی اور سائز میں بھی کچھ بڑھ چکی ہوتی ہے مریض کو اسے اٹھا کر چلنا دوبھر ہو جاتا ہے
جس مزاج کے بگڑنے سے یہ مرض پیدا ہوتی ہے اب وہی مزاج یعنی اسی مزاج کی ادویہ کا عضو خاص پہ لیپ کیا جائے تو عضوخاص غیر فطری انداز میں مقامی طور پر اتنا بڑہایا جاسکتا ہے جیسے ٹانگ بڑھ جاتی ہے میں نے نقطہ ہی بتانا تھا وہ بتا دیا ہے نہ مزاج مرض بتاؤں گا نہ ہی ایسی ادویات بتاؤں گا جو طب پہ عبور رکھتے ہیں وہ فورا سے پہلے بات کی تہہ تک پہنچ چکے ہونگے
اب بات کرتے ہیں ایسی ادویات پر جو نقصان بھی نہ کریں اور کچھ نہ کچھ فاٸدہ بھی ضرور دیں اب اس موضوع پر اور انتشار مقامی کیسے پیدا کیا جائے اور کجی کس طرح دور کی جا سکتی ہے کیسے طلا تیار کرکے استعمال کرنا چاہیے
اس ساری بات کا لب لباب یہ ہوا کہ یہ کام کسی حد تک درست نہیں ہے
اور ایک بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ چند دوائیں جو ہر کوئی طلاؤں میں استعمال کرتا ہے وہی دوائیں بدل بدل کے نت نئے فوائد کے ساتھ کتب میں بھی اور نیٹ پر بھی لکھی جاتی ہیں جن میں کچھ کا ذکر میں کر دیتا ہوں
سم الفار
شنگرف
پارہ
دارچکنا
رسکپور
میٹھا تیلیہ
چربی شیر
چربی ریچھ
چربی بطخ
چربی مرغ
روغن لونگ
جائفل
جلوتری
عقرقرحا
روغن زیتون
چنبیلی کا تیل
گنڈوئے
جونک
مغز چڑا
مغز کوا
مغز گدھا
گدھے یا گھوڑے کے پاؤں کے ناخن اور انکا پیشاب وغیرہ
پتہ نہیں کیا کیا استعمال میں لائیں گے بعض نے تو جذبات میں طلاؤں میں کستوری زعفران عنبر تک لکھا ہوتا ہے خواہ پوری زندگی کستوری عنبر دیکھا بھی نہ ہو لیکن دوا میں پاؤ بھر شامل کردیں گے یہ سب کچھ کتابوں میں لکھا ہوا ہے بھری پڑی ہیں کتابیں ایسی کھانیوں سے اور ہمارے کچھ معصوم دوست آنکھیں بند کرکے وہی کچھ یہاں بھی لکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اب کتابوں میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے اسے لوگوں کی اکثریت درست سمجھ لیتی ہے اور اس پہ ایمان کی حد تک یقین بھی کرلیتے ہیں بعض معصوم لوگ تو ان میں سے بہت سے نسخے بناتے بھی ہیں اور جب رزلٹ کے طلب گار ہوتے ہیں تو ویسا کوٸی رزلٹ نہیں ملتا پھر بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید میرے بنانے میں کچھ غلطی ہوگئی ہے حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ اپنی کم علمی میں وہ سب مار کھا رہے ہوتے ہیں جبکہ بندے کو پہلے یہ بات سمجھنی ضروری ہوتی ہے کہ آیا جو جو اجزاء میں اس میں استعمال کررہا ہوں ان اجزاء کا اپنا انفرادی فعل کیا کیا ہے ان کا مزاج کیا کیا ہے
یاد رکھیں ہر وہ کتاب جس کے سر ورق پر حکیم کا نام اور حکمت کی شاہکاریاں لکھی ہوں وہ اصلی اور سچی نہیں ہوتی
جو اصل اور حقیقت میں طب کی کتابیں ہیں وہ تو بخیل لوگ چھپا کے بیٹھے ہیں لیکن اللہ بے نیاز ہے اسکے کچھ خاص چنے ہوۓ بندے اس علم کو آگے بڑھانے میں گامزن ہیں ورنہ بخیل تو یہ علم قبر میں ساتھ لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں
آئیے اب میں آپ کو عضوخاص کی وہ خوبیاں جو صحت کی حالت میں اس کے اندر ہونی چاہیے ان سے آگاہ کرتا ہوں
عضو تناسل کا سیدھا ہونا
عضو تناسل کا سخت ہونا
عضو تناسل میں شدید تناؤ ہونا
علاقائی موسمی ماحول کے مطابق فطری لمبائی ہونا
اب پہلی بات سیدھا ہونا سے مراد یہ ہے کہ اس میں کجی نہ ہو یعنی بندہ مشت زنی اور لواطت سے بچا رہے اس سے اعصاب مجروح ہو جاتے ہیں اور یہ سختی پیدا نہیں کرنے دیتے
اب دوسری اور تیسری صفت حقیقت میں ایک ہی ہیں سخت ایسا کہ جیسے لکڑی ہو تناؤ سے مراد یہ ہے جوش کی حالت میں اپنی ہیئت سے بڑھ چکا ہو
اب آخری بات سے مراد یہ ہے کہ ایشاء میں بھی ماحول اور موسمی تغیر کے سبب مختلف ممالک میں عضو تناسل کا سائز مختلف ہے جیسے عرب میں سائز ہم سے لمبا ہے اور افریقی ممالک میں تو سائز خوفناک حد تک بڑھ جاتا ہے باقی وہ لوگ جو پر مشقت زندگی گزارتے ہیں ان کا سائز ان سے بہتر ہوتا ہے جو زندگی عیش وعشرت میں گزارتے ہیں اب ایک اہم نقطہ اور آپ کو بتانے لگا ہوں یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ عضوتناسل میں کوئی ہڈی تو ہوتی نہیں ہے صرف انتشار کے وقت خون کا دوران عضوخاص میں بڑھ جاتا ہے جس سے اس میں سختی آجایا کرتی ہے اب آپ ہی بتائیں اگر خون وہاں جائے ہی نہیں تو کیا آپ کا عضو تناسل انتشاری حالت میں آئے گا تو آپ کا جواب ہو گا نہیں آئے گا اب آپ نے دوران خون کے عمل کو سمجھنا اور سوچنا ہے اس بارے میں تشریحات آپ کتب میں پڑہیں کہ کیسے خون کا نظام پورے بدن میں ہے میں آپ کو سادہ الفاظ میں بس ایک نقطہ بتائے دیتا ہوں وہ بھی دلائل سے
عضو تناسل میں باریک باریک سی رگیں ہوتی ہیں جن میں وقت خاص کے وقت خون دوڑتا ہے اگر آپ کے خون کا قوام پتلا ہوا تو تیزی کے ساتھ ان رگوں میں خون دوڑے گا اگر آپ کا خون گاڑھا ہوتا ہے تو انتہائی سست روی سے ان رگوں میں خون جائے گا ممکن ہے آپ کو خون اتنا گاڑہا ہو چکا ہو جو ان رگوں میں دورہ کر ہی نہ سکتا ہو اب خون کا قوام سمجھنے کے لئے آپ اپنے ذہن میں موبل آئل پیٹرول اور مٹی کے تیل کو ذہن میں رکھیں ان تیلوں کے گاڑہے پن اور پتلے قوام کو سامنے رکھیں اور باریک نالیوں سے گزاریں بات سمجھ آجائے گی یعنی اصل حقیقت جو ہمارے سامنے واضح ہوئی وہ یہ ہے کہ اگر خون کا قوام پتلا ہوگا تو عضو تناسل میں تیزی سے اور بھر پور خون کا دوران ہوگا جس سے اکڑاھٹ یعنی سختی یعنی انتشار انتہائی شدت سے ھہوگا اب ثابت ہوا کہ جو لوگ کمی انتشار کا شکار ھوتے ھے ان کے خون کا قوام پتلا کرنا ضروری ہے
خون کا گاڑھا پن کولیسٹرول کی وجہ سے ہوتا ہے پہلے مریض کا کولسٹرول چیک کرائیں اگر وہ بڑھ چکا ہے تو اس کا علاج کریں اب ایک اور مسئلہ بھی ہوتا ہے اگر بدن میں خون ہی نہ ہو تو بھی انتشار کم ہوگا اگر کمی خون ہے تو اسے دور کریں اب ایک اور بھی کیفیت ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو مشت زنی کا شکار رہے یا وہ لوگ جو لواطت کا شکار رہے ہیں ان کی باریک نالیاں جو عضوخاص کے اوپر ہیں یا پھر جڑ کے شروع میں ہیں وہ مجروح ہو چکی ہوتی ہیں اب ایلوپیتھی میں تو شاید ہمارے ملک میں نہیں بلکہ یورپ اور بعض دیگر ممالک میں ان کا ایک ہی حل آسان طریقہ سے انہوں نے نکالا ہوا ہے ایک آپریشن کرکے بڑی خون کی رگوں کو ان چھوٹی رگوں سے ڈائریکٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ خون کا دورہ بھر پور اور شدید ہو جائے لیکن طب میں اس کا علاج ایسی ادویات ہیں جو ان نالیوں کو مرمت کردیتی ہیں
طب میں ان نالیوں کی مکمل مرمت کا علاج ہے اب یہاں طلا کی ضرورت ہے اور طلا بھی ہم نے عقل و دلائل اور تشریح کرکے سوچ سمجھ کے بنانا ہے لیکن اس سے پہلے میں ایک اور بات کی تشریح کرنا چاہتا ہوں انتشار شدید پیدا کرنے کے لیے ایک چیز بہت ہی اہم ہے وہ ہے دل کا قوی ہونا اب جتنا دل طاقت ور ہوگا وہ اتنی ہی طاقت سے خون کو پمپ کرے گا یعنی قوت حیوانیہ کو بڑھانا بھی بہت ضروری ہے
اب بات طلا کی کرتے ہیں تو طلا ہمیں ایسا چاہیے جو مقامی طور پہ ایسی تحریک پیدا کرے جس سے خون کا دورہ بڑھ جاۓ
اور طلا ایسا بھی ہونا چاہیے جو مضروب شدہ نالیوں کو بھی درست کرے
اور طلا ایسا بھی ہونا چاہیے جو عضلات میں مقامی تحریک پیدا کرسکے آئیے اب ںم ان ادویات پہ بحث کرتے ہیں جو اس ضمن میں آتی ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہماری مطلوبہ دوائیں کون کون سی ہو سکتی ہیں جو ہمارا مسئلہ بھی حل کردیں
مالکنگنی کا تیل بدن کے کسی بھی مقامی حصہ میں دوران خون تیز کرنے کی سب سے اعلی دوا سمجھی جاتی ہے اب ہمیں بھی عضو تناسل میں دوران خون تیز کرنا ہے ہمیں ضروت پڑ گئی ہے تو ہم کیوں نہ بے ضرر دوا جس کے مضر اثرات بھی نہ ہوں اس سے کام لیں بےشک سم الفار مقامی انتشار بڑی تیزی سے کرتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں لوگ اسے سنکھیا کے نام سے جانتے ہیں یہ بہت بڑی زہر ہے اگر ذرا سی بھی بداحتیاطی ہو گئی تو موت کے منہ میں بطور روغن مالش بھی لے جاسکتا ہے یعنی اگر عضوخاص پہ کوئی زخم ہے اور آپ روغن سم الفار لگا رہے ہیں تو لازماً زہر آپ کے خون میں کچھ نہ کچھ مقدار میں چلا جائے گا اور کچھ ہو نہ ہو بعض اوقات بذریعہ نالی پیشاب سے روغن مثانہ تک جا سکتا ہے جو آپ کے مثانہ میں زخم پیدا کرسکتا ہے اور کبھی گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے اب اس سے بہتر مال کنگنی ثابت ہوگی اب سم الفار سے بہتر کچلہ کا استعمال ہے اگر کچلہ کو روغن زیتون میں جلا لیں تو کام مقامی انتشار کا کرے گا اب یہ شدید حرارت غریزی مقامی طور پر پیدا کرکے کچھ نہ کچھ بڑہوتری کی طرف بھی مائل کرے گا لیکن اس سے پھر بھی مالکنگنی زیادہ بہتر ثابت ہو گی اب دوسری بات تھی عضلات کی شدید مضبوطی کی بھی ضرورت ہوتی ہے تو دوستو اس بارے میں سب سے بہترین دوا روغن سانڈھا ہے بشرطیکہ آپ خالص خود حاصل کر سکیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے آپ بازار میں جا کر ان لوگوں سے جو زندہ سانڈہے لے کر بیٹھے ہوتے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے ان سے تیل نکلوا لیں کوئی اور تیل شامل نہ کرنے دیں یہ فورا جذب ہونے کی بھی خوبی رکھتا ہے یہ بھی انتشار پیدا کرنے مضبوطی اور طوالت اور فربہی میں کچھ نہ کچھ معاونت کرے گا اب بعض حکماء کجی کی حالت میں پہلے ضماد کو بہتر خیال کرتے ہیں جس سے مقامی طور پہ ایسی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جو عضوتناسل پہ چھالے نکال دیا کرتی ہے اس بارے جمالگوٹہ مغز پانچ تولہ صابن سن لائٹ یا پیلے رنگ کا آج بھی کپڑے دھونے والا ایک صابن بازار سے ملتا ہے جس میں کاربالک شامل ہوتا ہے یہ حاصل کرلیں ڈیڑھ سو گرام سندھور پانچ تولہ تیل کنجد دس تولہ کاربالک تین تولہ آب جمالگوٹہ کو پہلے رگڑ کر پھر باقی ادویات خوب باریک کرکے سب کو اکٹھے کھرل کر لیتے ہیں بس ضماد یا طلا تیار ہے ایک دوبار بطور ضماد لگانا کافی ہوتا ہے عضوخاص کو چھیل کر رکھ دے گا میرے خیال میں اسے لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کسی سوتی کپڑے سے اچھی طرح زور سے صاف کرکے طلا استعمال کر لیں اب بات مختصر کرتا ہوں جو طلا بے ضرر اور نہایت ہی کثیر فوائد حاصل کرنے میں میں تجویز کروں گا وہ مندرجہ ذیل ہے روغن مالکنگنی روغن سانڈھا روغن لونگ ہر ایک بیس گرام اب ان میں بیس گرام بیر بہوٹی اچھی طرح کھرل کردیں پھر اسے کسی شیشی میں بند کرکے تین دن دھوپ میں رکھ دیں بس طلا تیار ہے فورا انتشار لائے گا مضبوطی یعنی قوی یعنی ضعف دور کرے گا باقی وہ کام بھی بڑی حد تک کرے گا جو آپ سوچ رہے ہیں کیونکہ اس کا مزاج عضلاتی غدی بنے گا یعنی طوالت کچھ نہ کچھ ضرور ہوگی ایک آخری نقطہ بتائے دیتا ہوں عضو میں طوالت حرارت سے پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ اگر موٹائی پیدا کرنی ہو تو پھر اس میں رطوبت بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے رطوبت پیدا کرنے کےلئے آپ کو مقامی طور پہ بلغمی مزاج پیدا کرنا پڑے گا یعنی ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے یا تو لمبائی پیدا کی جاسکتی ہے یا پھر موٹائی پیدا کی جاسکتی ہے دونوں کام ایک ساتھ نہیں کیے جا سکتے اگر ایسی دوائیں اکٹھی ملا کر استعمال کریں گے تو سوائے بگاڑ پیدا کرنے کے اور کچھ بھی نہ کرسکیں گے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ اور پانی کو ایک برتن میں قید کرسکتے ہوں پھر پانی کی شکل میں تو پٹرول بھی ہے اگر پٹرول اور آگ آپ ایک برتن میں رکھ سکتے ہیں تو یہ کام بھی کرسکتے ہیں ہاں وقتی کمال ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی نقصان دہ ہی ہوتا ہے اب ایک طریقہ بتائے دیتا ہوں آپ آزما کر دیکھ لیں بھڑ برابر وزن تیل سرسوں میں ڈال کر جلا لیں جب جل کر کوئلہ ہو جائیں تو اسے تیل سے چھان کر الگ کر لیں اب اس روغن کی مالش کرکے دیکھ لیں آپ کا عضو تناسل آپ کی سوچ سے بھی زیادہ فورا سے پہلے فربہ اور کچھ لمبا ہو جائے گا بے شک وہ خواتین جن کے پستان سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں وہ لگا کر تجربہ کرلیں ایک گھنٹہ کے اندر ہی پستان کا سائز 32 سے 58 ہو جائے گا باقی فربہی کرنے کے لئے آپ کافور تولہ کجلی 5 تولہ ویزلین 6 تولہ اچھی طرح کھرل کر لیں پہلے کجلی اور کافور کو اچھی طرح رگڑیں پھر ویزلین یعنی پیٹرولیم جیل شامل کریں بس طلا تیار ہو گیا دن میں ایک دوبار عضو تناسل پہ مالش کیا کریں اب یہ دبلاپن کے ساتھ ساتھ ذکاوت حس سرعت اور کجی بھی دور کرے گا میرا خیال ہے اتنا ہی مضمون کافی ہے باقی باتیں اور بحثیں پھر کبھی سہی مجھے امید ہے آپ بہت کچھ سمجھ گئے ہیں کہ کیسے طلا تیار کرنا ہے لمبے گورکھ دھندے سے بچیں اور آگ اور پانی کو اکھٹا نہ کیا کریں یہ اللہ کی مخلوق پہ آپ کا احسان ہوگا